ہومیوپیتھی کی دریافت ڈاکٹر ہانیمن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس اصول علاج کی بنیاد “مثل کا علاج مثل سے کیجئے” پر رکھی اور انہوں نے اسے علاج بالمثل کا نام دیا۔ علاج بالمثل کو قدرتی طریقہ علاج کہا جاتا ہے کیونکہ یہ طریقہ علاج قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں پر مبنی ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے یہ اصول اس قدر سادہ اور سمجھ میں آنے والے ہیں کہ انسانی ذہن انہیں معمولی سے غور اور فکر کے بعد بھی قبول کر لیتا ہے۔ ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں کو سمجھ لینے کے بعد معالج اس طریقہ علاج کو پوری طرح سمجھ لیتا ہے۔ ہومیوپیتھی کی بنیاد وہ اصول ہیں جو خود اس کے اندر سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو ریاضی کے قاعدوں کی بجائے نتائج کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔ ہومیوپیتھی ایک طریقہ کار ہے جس میں دوا کے مخصوص عمل پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر اثرات کو بھی نظر میں رکھا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کے بنیادی اصول اس قدر سادہ اور قرین عقل ہیں کہ معمولی سے غور و فکر کے بعد انہیں انسانی ذہن قبول کرلیتا ہے۔ دراصل ہومیوپیتھک طریقہ علاج فطرت کے اس قانون کے مطالعہ کا نتیجہ قرار پایا کہ ہر دوا جو انسانی جسم میں خلل پیدا کرسکتی ہے وہ اس خلل کو رفع کرنے پر بھی قادر ہوتی ہے وہ تمام اصول و قوانین جو ہومیوپیتھی کی بنیاد ہیں درج ذیل ہیں۔
(1)مثل کا علاج مثل سے کیا جائے یعنی مریض کو وہ دوا دی جائے جس میں وہ تمام علامات موجود ہوں جو دوا دیتے وقت مریض میں موجود ہوں۔
(2)دوا کو قلیل سے قلیل مقدار میں دیا جائے۔
(3)ایک وقت میں ایک ہی دوا دی جائے۔
(4)مریض کو اس کی مجموعی علامات کے پیش نظر دوا دینی چاہیے اور اس کو عارضی اور جزوی فائدہ پہنچانے کے بجائے مکمل طور پر شفایاب کرنے کی کوشش کی جائے۔
(5)مریض کو ایسی دوا دی جائے جس کی ڈرگ پروونگ ہو چکی ہو۔ دوا کی آزمائش تندرست جسم پر ہونی چاہیے۔
ہومیوپیتھی ایک ایسا فن یا سائنس ہے جس کے ذریعے مریض کا علاج مریض کی بیرونی اور اندرونی علامات کے مطابق بلمثل طریقہ سے کیا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج قدرت کے بنائے ہوئے اٹل قوانین پر مبنی ہے جبکہ دوسرے طریقہ ہائے علاج اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی پابندی بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی بنیاد صرف مریضوں کو تختہ مشق بنانا ہے وہ ہر روز مریضوں پر نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور نئی نئی دریافتیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اپنی دریافت کی ہوئی دوا یا تشخیص کو رد کرکے نئی دوا اور نئی تشخیص کا نظریہ پیش کر دیتے ہیں اس لئے ان کے تجربات کسی اصول کے پابند نہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی کے قدرتی اور اٹل قوانین پر عمل کرکے مریض کو شفا یاب کر سکتے ہیں۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ بہترین اصول علاج یہ ہے کہ وہ سریع ہو، سہل ہو اور مریض کو مستقل طور پر شفا دے اگر ہم ہومیوپیتھی کے اس دفعہ کو سامنے رکھے اور مختلف طریقہ ہائے علاج کا مطالعہ کریں تو ہمیں ہومیوپیتھی ہی ایسا طریقہ علاج نظر آتا ہے جو آرگینن کی اس دفعہ پر پورا اترتا ہے۔ جس طرح قدرت کے اصول اٹل اور نہ بدلنے والے ہیں اسی طرح ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول بھی قدرتی ہونے کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے جبکہ علاج کے دوسرے طریقوں کے اصول قدرتی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ ہومیوپیتھی کے اصول آج بھی وہی ہیں جو اس کی دریافت کے وقت اخذ کیے گئے تھے اور نہ ہی یہ آئندہ ہزاروں سال تک تبدیل ہوں گے۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علاج آسان بے ضرر اور مستقل ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہومیوپیتھک دوا کا انتخاب مثل کا علاج مثل سے کیجئے کے اصول کو سامنے رکھ کر کیا جائے تو دوا قوت حیات (نفس) پر پوری طرح اثر کرتی ہے جس سے مریض اندرونی طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے اور نتیجتہً اس کی بیرونی علامات بھی آسان اور بے ضرر علاج سے مستقل طور پر ٹھیک ہو جاتی ہے۔ آرگینن کی دفعہ53 میں آتا ہے کہ ہومیوپیتھی سے ہی آسان اور درست شفاء حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طریقہ سے زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے ہومیوپیتھک ہی قدرت کے ہمیشہ رہنے والے اور تبدیل نہ ہونے والے اصولوں پر قائم ہے ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی انسان کو سائنسی بنیادوں پر سیدھے راستے پر چلتے ہوئے شفایاب کر سکتا ہے یہ طریقہ علاج بالکل سیدھا ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی ٹیڑھ موجود نہیں اس کے سیدھے ہونے کی مثال دو لفظوں کے درمیان موجود سیدھے خط سے دی جاسکتی ہے۔
(DHMS 2nd year Philosophy, سال دوم،
مثل کا علاج مثل سے کیجئے، قدرتی طریقہ علاج)