wordpress-seo
domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init
action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/youdoctor/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114The post ہوا کو صاف کرنے والے قدرتی ذرائع appeared first on YOU DOCTOR.
]]>:بارش
بارش کا پانی ہوا میں موجود بہت سی کثافتوں کو بہا کر لے جاتا ہے، اس کے علاوہ بارش کے پانی میں کاربانک ایسڈ گیس حل ہو جاتی ہے اس طرح ہوا میں اس گیس کی زیادتی نہیں ہو پاتی۔
:پودے
پودے سورج کی روشنی میں ہوا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور اس سے خوراک کا کام لیتے ہیں۔
:تیز ہوائیں
تیز ہوائیں ہوا میں شامل ہونے والی کثافتوں کو آبادی سے دور لے جاتی ہیں۔ اس طرح ہوا میں کثافتوں کی مقدار کم ہوتی رہتی ہے۔
:دھوپ
دھوپ ہوا میں موجود بہت سے جراثیم کو ہلاک کرتی رہتی ہے اس طرح جراثیموں سے پاک ہوتی رہتی ہے۔
:نفوذ
ہوا کے تمام اجزاء نفوذ کے عمل سے آپس میں مل کر ہوا کی ترکیب کو تناسب میں رکھتے ہیں۔ اس سے ہوا میں موجود ضررسال کثافتوں کا اثر کم ہو جاتا ہے۔
:اوزون
ہوا میں موجود اوزون ہوا میں موجود نامیاتی کثافتوں کو عمل تکید کے ذریعے دور کر دیتی ہے۔
(DHMS 2nd year Hygiene, natural elements to purify air)
The post ہوا کو صاف کرنے والے قدرتی ذرائع appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post ہوا کو گندا کرنے والے عوامل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>غیر نامیاتی زراعت میں ریت، پیسا ہوا کوئلہ, نمک اور دھویں میں موجود کاجل وغیرہ کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔
یہ ٹھوس کثافتیں بھاری ہونے کی وجہ سے مختلف اشیاء پر لگ جاتی ہیں مثلا کرسی وغیرہ پر جب ان اشیاء کو جھاڑا جاتا آ جاتا ہے تو یہ کثافتیں دوبارہ ہوا میں مل جاتی ہیں۔
گیس کی شکل کی کثافتیں انسانوں اور حیوانوں کے سانس کے ذریعے جلنے کے عمل سے اور نباتاتی اور حیوانی مادوں کے گلنے سڑنے سے ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہے سانس لینے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بخارات ہوا میں شامل ہوتے ہیں جلنے کے عمل میں بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات ہوا میں شامل ہوتے ہیں اس کے علاوہ وہ جلنے کے عمل سے کاربن مونو آکسائیڈ بھی ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ بند کمرے میں اس گیس کی زیادتی بے ہوشی کا باعث بن سکتی ہے بعض اوقات اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ چیزوں کے گلنے سڑنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ امونیا سلفورٹیڈ ہائیڈروجن وغیرہ پیدا ہوتی ہے یہ کثافتیں عام طور پر نالیوں، پاخانوں، قبرستانوں اور دوسری گندگی والی جگہوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے یہ کثافتیں رہائشی علاقوں میں انسانی صحت کے لئے بہت مضر ہیں۔
(DHMS 2nd year Hygiene, causes of air pollution, سال دوم)
The post ہوا کو گندا کرنے والے عوامل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post ہوا کے اجزا appeared first on YOU DOCTOR.
]]>:آکسیجن
آکسیجن ہوا کا نہایت اہم جزو ہے یہ سانس لینے اور جلنے کے عمل کے لیے بہت ضروری ہے یہ ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ گیس ہے یہ پانی میں بہت کم حل پزیر ہے۔
:نائٹروجن
ہوا میں نائٹروجن گیس کی مقدار عام ہوا کا 4/5 حصہ ہوتی ہے یہ گیس نباتات اور حیوانات کی بناوٹ میں بڑا حصہ لیتی ہے ہوا میں اس گیس کی موجودگی سے آکسیجن کے اثرات معتدل رہتے ہیں اگر ہوا میں نائٹروجن نہ ہوتی تو جلنے کا عمل بہت تیز ہوتا اور جاندار اشیاء کی موت بھی بہت جلد واقع ہوتی۔
:کاربن ڈائی آکسائیڈ
ہوا میں اس کیس کا تناسب چار فیصد ہوتا ہے یہ گیس پانی میں حل پذیر ہے سوڈا واٹر کی بوتلوں میں یہ گیس بھری جاتی ہے یہ گیس ہاضمے میں مدد دیتی ہے۔ یہ گیس بے رنگ ہوتی ہے اس میں ہلکی سی گو پائی جاتی ہے اس کے ذائقے میں تیزابیت پائی جاتی ہے اس کی زیادہ مقدار میں موجودگی جلنے کے عمل کو ختم کر دیتی ہے اگر اس کیس کو چونے کے پانی میں گزارا جائے تو پانی کا رنگ دودھیا ہو جاتا ہے۔ یہ گیس عام ہوا کے نسبت بھاری ہوتی ہے بندہ کو اور گہرے غاروں میں جمع ہوجاتی ہے اگر کوئی آدمی کسی اس قسم کے کنویں یا غار میں جس میں یہ گیس جمع ہو اتر جائے تو وہ بے ہوش ہو جاتا ہے اس سے اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ گیس ہر جاندار کے سانس کے ساتھ خارج ہوتی رہتی ہے جلنے والی چیزوں کی کاربن ہوا سے مل کر کاربانک ایسڈ گیس بناتی ہے۔ اس کے علاوہ حیوانی اور نباتاتی مادوں کے گلنے سڑنے سے بھی یہ گیس پیدا ہوتی ہے تمام درخت اور پودے سورج کی روشنی میں کاربانک گیس کو اپنے اندر جذب کرتے رہتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہوا میں ان گیسوں کا تناسب قائم رہتا ہے۔
:آبی بخارات
ہوا میں ابھی بخارات کی موجودگی ہمارے جسم کے درجہ حرارت کو مناسب رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ہوا میں آبی بخارات سورج کی گرمی سے پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے سے شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانوں اور حیوانوں کے سانس کے ساتھ بھی آبی بخارات خارج ہوتے ہیں جو ہوا میں شامل ہوتے رہتے ہیں جلنے کے عمل سے بھی آبی بخارات بنتے ہیں جو ہوا میں مل جاتے ہیں۔
:امونیا
امونیا ہوا میں بہت معمولی مقدار میں ہوتا ہے یہ نائٹروجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے جو چیزوں کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتا ہے یہ بارش کے پانی کے ساتھ مل کر پودوں کو نائٹروجن پہنچ جاتا ہے۔
:اوزون
یہ دراصل تیز قسم کی آکسیجن ہے فضا میں موجود برقی رو آکسیجن کو اوزون میں بدل دیتی ہے اس جگہ جہاں پر پانی زیادہ مقدار میں آبی بخارات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے یہ گیس بھی پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ گیس ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی یہ موجود ہوتی ہے یہ ایک بہت مفید گیس ہے کیونکہ یہ تمام حیوانی کثافتوں کو جلا کر ان کے نقصان دہ اثرات کو ختم کر دیتی ہے۔
(DHMS 2nd year Hygiene, Composition of air, oxygen, nitrogen, carbon dioxide, vapours, ammonia, ozone, سال دوم)
The post ہوا کے اجزا appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post وٹامن کی تفصیل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>ہمیں زندہ رہنے اور اپنی صحت کی نشونما کے لیے
خوراک میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی اور معدنی نمکیات کے علاوہ کچھ اور ضروری اجزا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضروری اجزاء وٹامن کہلاتے ہیں۔ وٹامن جسم کو توانائی مہیا نہیں کرتے. ان کی کوئی کلارک ویلیو نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بدن کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔ بلکہ یہ جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی حملوں میں مددگار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چند ایک اقسام کے وٹامن جسم میں بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ مگر باقی اقسام کے وٹامنز کا خوراک میں ہونا بہت ضروری ہے جسم کو تندرستی قائم رکھنے کے لیے بہت تھوڑی مقدار میں وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے جسم میں ان کا ہونا لازمی ہے۔ وٹامنز کی درجہ بندی درج ذیل ہے۔
:(A)وٹامن اے
وٹامن اے جسم کی نشونما کے لیے ضروری ہے۔ یہ وٹامن جسم میں متعدی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ اندھیرے میں دیکھنے کے قابل بناتا ہے اور ایپی تھیلیل ٹشو کی بنی ہوئی جھلیوں کو صحت مند رکھتا ہے۔ مثلا آنکھ کی بیرونی جھلی اور نظام تنفس کی بیرونی جھلی وغیرہ۔ ایک بالغ آدمی یا عورت کو روزانہ وٹامن ایک ہیں کی پانچ ہزار (5000)یونٹ درکار ہوتے ہیں۔ حمل یا دودھ پلانے کے زمانے میں ایک عورت کو چھ ہزار (6000) سے سات ہزار (7000) یونٹ تک وٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ویٹامن کی کمی ہوجاتی ہے۔(night blindness)سے نائٹ بلائنڈنیس
جلد اور آنکھ کا کورنیا خشک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جلد، نظام تنفس، نظام اہتطام اور نظام بول میں جراثیمی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ وٹامن جانداروں کی چربی، انڈے، دودھ، مکھن، کاڈ اور ہیلی بٹ مچھلی کے جگر کے تیل سے حاصل ہوتا ہے۔ مختلف سبزیات اور پھلوں مثلا گاجر، پالک، شلغم، ٹماٹر، سنگترہ اور آم میں ایک مادہ کیرو ٹین پایا جاتا ہے۔ جو جسم میں جاکر بٹن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔(A)اے
:(B)وٹامن بی
وٹامن بی 11 مختلف وٹامنز کے گروپ کا نام ہے وٹامنز کا یہ گروپ بی کمپلیکس کہلاتا ہے۔ اس گروپ میں مندرجہ ذیل وٹامن زیادہ اہم ہیں۔
:B1 وٹامن
وٹامن بی1 اعصابی نظام، دل اور عضلاتی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس وٹامن کی کمی بیری بیری کے مرض کا باعث بنتی ہے۔ یہ وٹامن انڈے جگر خمیر اور چاول کے چھلکوں میں پایا جاتا ہے۔ مشین سے پیسے ہوئے آٹے اور مشین میں چھڑے ہوئے چاولوں میں اس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک انزائم کی مدد کرتی ہے۔
:B2 وٹامن
یہ وٹامن آنکھوں، منہ اور جلد کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی کمی سے آنکھوں میں اور جلد میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔ زبان پاک جاتی ہے اور ہونٹوں کے کونے پھٹ جاتے ہیں یہ وٹامن دودھ انڈے جگر دالوں اناج اور سبزیات میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک انزائم کی مدد کرتی ہے۔
:نایاسین یانکوٹینامائڈ
یہ وٹامن پی پی فیکٹر بھی کہلاتا ہے۔ یہ بھی حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک اور عزائم کی مدد گار ہے۔ یہ وٹامن جلد، دماغ اور نظام اہتطام کی صحت سے متعلق ہے۔ اس کی کمی اعضاء کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے جلد کی سوزش اسہال اور ذہنی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن اناج، دودھ، انڈے، جگر، گوشت خمیر، دالوں، پھلیوں اور مٹر میں پایا جاتا ہے۔
:B6 وٹامن
یہ وٹامن ہمارے جسم میں امینو ایسڈ بنانے والے عزائم کی مدد کرتا ہے ہماری انتڑیوں میں موجود بیکٹیریا یہ وٹامن بناتے ہیں۔ اس لئے عام طور پر ہمارے جسم میں اس وٹامن کی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن بعض اوقات ادویاتی ردعمل سے وٹامن کی کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایلنمیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔
:B12 وٹامن
یہ مٹا میں خون کے سرخ سیلوں کی پیدائش کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس وٹامن کی کمی بھی ایلنمیا کا باعث ہوتی ہے۔ یہ دودھ، جگر اور گوشت میں پایا جاتا ہے۔
:فولک ایسڈ
وٹامن کی یہ قسم بھی خون کے سرخ سیلوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے یہ ہڈیوں کے سرخ گودے اور افعال کے لئے بہت ضروری ہے اس وٹامن کی کمی خون کی کمی کا باعث بن جاتی ہے اور ایلنمیا ہو جاتا ہے۔
:C وٹامن
وٹامن سی سبز ترکاریوں تازہ پھلوں مثلا سنگترے، مالٹے کنو چکوترے، لیمو اور گلگل وغیرہ میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ امرود، آملہ، اناناس اور آلو میں بھی اس کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ تھوڑی مقدار میں یہ دودھ میں بھی پایا جاتا ہے۔ وٹامن سی ہڈیوں جیسی بافتوں کے سیلوں کے درمیان پائے جانے والے مادے اور خون کی عروق شیریہ کی صحت کو برقرار رکھتا ہے۔ اس ویٹامن کی کمی سے سکروی نامی مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مرض میں جسمانی کمزوری، وزن میں کمی اور عضلات اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ مسوڑھے سوج جاتے ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں مثلاً مسوڑھوں، ناک، کان، آنکھ، دماغ، انتڑیوں، گردوں جلد کے نیچے عضلات میں اور ہڈیوں کی بیرونی جھلی پیری اوسٹیم سے خون بہتا ہے جب ہڈیوں کی بیرونی جھلی سے خون بہہ رہا ہو تو ہڈیوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ ڈبے کا دودھ ویٹامن سی کی کمی پیدا کر دیتا ہے۔ اس لئے ایسے بچوں کو جو ڈبے کا دودھ پی رہے ہوں، روزانہ وٹامن سی کی ایک خاص مقدار بھی دی جانی چاہیے۔
D وٹامن
وٹامن ڈی دودھ، دہی، کریم، انڈے کی زردی، مکھن اور کاڈ اور ہیلی بٹ مچھلی کے جگر کے تیل میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس وٹامن کی افزائش دھوپ کی الٹراوائلٹ شعاؤں کے عمل سے ہماری جلد میں بھی ہوتی ہے۔ یہ وٹامن کیلشیم اور فاسفورس کو انتڑیوں میں سے جذب کرکے خون میں شامل کرتا ہے۔ اور ہڈیوں کی نشوونما میں بھی کام کرتا ہے۔ اس طرح وٹامن ڈی کی خوراک میں کمی کی وجہ سے خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی مناسب مقدار جذب نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی یہ دھاتیں ہڈیوں کی نشونما بہتر طور پر کر سکتی ہے جس کی وجہ سے بچوں میں ریکٹس نامی بیماری ہو جاتی ہے۔ اس بیماری میں ہڈیاں ترم اور ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ عضلات میں ڈھیلا پن آجاتا ہے پیٹ پھول جاتا ہے اور بچوں کو اکثر دست لگے رہتے ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی سے حاملہ عورتوں کی ہڈیاں نرم ہو جاتی ہے۔ حاملہ عورتوں کی اس بیماری کو روسٹی اور ملیشیا کہتے ہیں۔
:E وٹامن
وٹامن ای گہیوں کے بیج، دوسری اجناس، سبز ترکاریوں اور مکھن میں پایا جاتا ہے۔ اس وٹامن کی کمی نظام تولید و تناسل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
:K وٹامن
وٹامن گوشت اور سبز پتوں والی ترکاریوں میں پایاK جاتا ہے۔ انتڑیوں میں موجود جراثیم بھی اسے تیار کرتے ہیں یہ وٹامن ایسے مرکبات کی تیاری کے لیے لازمی ہے جو بہتے ہوئے خون کے جسیمے کے لئے ضروری ہے۔
P وٹامن
یہ وٹامن لیموں اور سنگترے کے چھلکوں میں پایا جاتا ہے جسم میں اس کی موجودگی خون کی شریانوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
صرف روغنیات میں حل ہو سکتے ہیں۔ A,E,K وٹامن
پانی میں حل ہو سکتے ہیں۔ B.complex,C اور وٹامن
(DHMS 2nd year physiology, note on vitamins, Vitamin A, vitamin B, Vitamin B1, Vitamin B2, Vitamin B6, Vitamin B12, folic acid, Vitamin C, Vitamin D, vitamin E, vitamin K, vitamin P)
The post وٹامن کی تفصیل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>ہومیوپیتھی ہی شفا کا ایسا راستہ ہے جس میں زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ شفا کا یہ طریقہ کار قدرت کے دائمی اور غیر متغیر قانون کی بنیادوں پر قائم ہے اسی لیے یہ شفا کا سیدھا راستہ ہے جس سے صحیح اور ملائم شفا آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے ایلوپیتھی میں بہت سی چیزیں مرض کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں جو مریض کے لیے فائدہ بخش ہونے کی بجائے آخرکار نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس طریقہ علاج میں بہت سے ایسے عمل بروئے کار لائے جاتے ہیں جو نقصان دہ ہوتے ہیں مثلا فصد کھولنا خواب آور ادویات کا استعمال اور قبض دور کرنے کے لیے مملات کااستعمال وغیرہ۔
ایلوپیتھی میں دوا مجموعی علامات کو سامنے رکھ کر نہیں دی جاتی بلکہ دوا دیتے وقت صرف ایک علامت کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اسی ایک علامت کو دور کرنے کے لئے دوا دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک علامت تو شاید ٹھیک ہو جاتی ہو لیکن مریض کی دوسری تمام علامات جو کی تو رہتی ہیں اس کے علاوہ اس طریقہ علاج میں چونکہ دوا بالضد کے اصول کے تحت دی جاتی ہے اس لیے اس طرح دی جانے والی دوا مرض کو بچائے نکال باہر پھینکنے کے دبا دیتی ہے جس کی وجہ سے مریض وقتی طور پر افاقہ محسوس کرتا ہے لیکن پھر کچھ عرصے بعد موقع ملنے پر وہی مرض دوبارہ عود کر آتا ہے اور مریض کو پہلے کی نسبت زیادہ تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایلوپیتھی میں باالضد ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں جو مریض کے جسم میں پہنچ کر مرض کو وقتی طور پر دبا دیتی ہیں یہ ادویات پہلے تو وقتی طور پر مریض کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن بعد میں اس کے نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیماری جو وقتی طور پر دب گئی ہوتی ہے دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور پھر ڈاکٹر بارہ کسی دوسرے علامت کو سامنے رکھ کر علاج شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔
دراصل ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کی راہیں بالکل جدا ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایلوپیتھی جنگ و جدل کے ذریعے مریض کو طاقت کے زور پر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے جس میں وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج آرام اور سکون کے ساتھ مریض کی صحت کی حالت کو واپس لاتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے صحت مند بنا دیتا ہے۔
ایلوپیتھی میں جب دواؤں کے برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو معالج انہیں دوا کی مزید خوراکیں دے کر دبا دیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کی حالت ہمیشہ ہی خراب ہوتی ہے مثلا اگر کسی مریض کو نیند بہت زیادہ آتی ہو تو ڈاکٹر اسے قہوہ دیتا ہے جو شروع میں تو مریض کو فرحت پہنچاتا ہے اور اس کی نیند کو کم کر دیتا ہے لیکن بعد میں مریض کی نیند بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اس طرح افیون عارضی طور پر تو اسہال کو بند کر دیتی ہے۔ لیکن بعد میں اسہال زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہومیوپیتھی میں شفا دائمی ہوتی ہے چونکہ بیماری در اصل قوت حیات کے لیے غیر فطری افعال سے متاثر ہونے کا نام ہے اس لیے ہومیوپیتھی ہی اسے اپنی دواؤں کے ذریعے درست کر سکتی ہے۔ جب تک قوت حیات صحت کی حالت میں نہیں آتی بیماری کی جسمانی طور پر ظاہر ہونے والی علامات بھی ٹھیک نہیں ہوتی اس لئے قوت حیات جیسی لطف شے کو صحت کی حالت میں لانے کے لئے صرف ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی کارآمد ہو سکتا ہے جو ایلوپیتھی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایلوپیتھی میں صرف مریض کی ظاہری علامات کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی دوا تجویز کر دی جاتی ہے جبکہ ہومیوپیتھی میں دوا تجویز کرتے وقت مریض کی ظاہری علامات کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی علامات اس کے طرز معاشرت خوراک اور لباس وغیرہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور اس کی مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی دوا تجویز کی جاتی ہے اس طرح تجویز کی گئی دوا مریض کو ہمیشہ کے لیے صحت یاب کر دیتی ہے۔
ایلوپیتھی میں مرکب ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دوا میں موجود مختلف اجزاء مریض کے جسم میں اپنے اپنے اثرات شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر مریض کا موجودہ مرض وقتی طور پر دب بھی جائے تو پھر بھی اس میں بہت سی نئی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ایک دوا کے اصول پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک ہی دوا دی جاتی ہے جو مریض کی مجموعی علامات کو دور کرکے اسے شفا دیتی ہے۔
(DHMS 2nd year philosophy, Comparison of Homeopathy and Allopathy, سال دوم)
The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post انسانی زندگی میں ہائی جین کی اہمیت appeared first on YOU DOCTOR.
]]>انفرادی اور اجتماعی حفظان صحت کے مزید دو پہلو ہیں۔
:ذہنی حفظان صحت
اچھی اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے جہاں تندرست جسم کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ذہنی صحت کا ہونا بھی لازمی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں۔ کیونکہ ایک ذہنی طور پر صحت مند انسان ہی اپنے آپ کو تعمیری کاموں کی طرف راغب کر سکتا ہے، اگر کوئی آدمی ذہنی طور پر تندرست نہیں ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بے یقینی فکروفاقہ، پریشانی، بے حوصلگی، خوف، تعصب، نفرت اور ذہنی انتشار وغیرہ پائے جائیں گے جو اس کی عقل کو دبا دیں گے اور اس کی دماغی قابلیتوں کو ماؤف کر دیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ آدمی ہر کام میں ناکامی کا منہ دیکھے گا جس سے اس میں غم و غصہ پیدا ہوگا جو اس کے اعصاب پر اثر انداز ہوگا ان سب امور کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس شخص کے دل میں کمزوری پیدا ہو جائے گی۔ قوت ہاضمہ بھی ختم ہوجائے گی اور جسم نڈھال رہے گا اور یوں وہ جسمانی صحت گنوانے کے ساتھ ساتھ سماجی لحاظ سے بھی تباہ و برباد ہو جائے گا۔
ذہنی صحت کی بہتر نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ اچھی سوسائٹی کو اپنایا جائے تاکہ دل میں دوسروں کے لئے خلوص اور پیار کے جذبات پیدا ہوں اور نیک اعمال کی طرف مائل ہو، گھریلو کام میں مشغولیت، ورزش، کتاب کا مطالعہ اور سیر و تفریح ایسے عوامل میں جو انسان کو برے قسم کے خیالات سے دور رکھ کر اسے ذہنی صحت سے ہمکنار کرتے ہیں یہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادی صحت کے ساتھ ساتھ اجتماعی صحت کا بھی خیال رکھے اس مقصد کے لیے اسے چاہیے کہ وہ مختلف سماجی اور فلاحی کاموں میں حصہ لے اور دوسروں کی ذہنی صحت کی نشونما کے مواقع پیدا کرے۔
حکومت اور دوسرے فلاحی اداروں کا فرض ہے کہ وہ بھی قوم کی اجتماعی ذہنی صحت کے لیے قوم کو سماجی انصاف، جان و مال کا تحفظ، روزگار، مکان، متوازن خوراک، علاج کی سہولتیں، تعلیم اور تفریح کے بہتر مواقع فراہم کریں۔
:جسمانی حفظان صحت
کسی شخص کے جسمانی حفظان صحت کے لیے مندرجہ ذیل ضروریات کا ہونا لازمی ہے، مثلا گھر، صاف پانی، تازہ ہوا، متوازن غذا، اچھا لباس، تعلیم، مناسب روزگار اور سیر و تفریح کے مواقع کے علاوہ ہر شخص کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی جسمانی صحت کے نشوونما کے لئے صفائی کا پورا پورا خیال رکھے۔ اپنے جسم کو گندگی اور دوسری آرائشوں سے پاک رکھے موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔ جسم کی پاکیزگی بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے سر میں روزانہ کنگھی کرنا بھی ایک اچھی عادت ہے اس سے بال گرنے سے محفوظ رہتے ہیں چہرے کی صفائی بھی بہت ضروری ہے، آنکھیں اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہیں اگر یہ خراب ہو جائے تو انسان کسی کام کا نہیں رہتا اس لئے آنکھوں کی بڑی حفاظت کرنا چاہیے۔ دانتوں کی صفائی بھی جسمانی حفظان صحت کے لیے بہت ضروری ہے ان کی صفائی بھی بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے ہاتھوں اور پاؤں کی صفاہی سے بھی انسان بہت سی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔
جسمانی یا ذہنی صحت کے لئے مناسب ورزش بہت ضروری ہے۔ باقاعدہ ورزش صحت کو برقرار رکھتی ہے ورزش سے جسم کے مختلف نظام درست کام کرتے ہیں اس سے ان کا نظام تنفس، نظام انہظام، نظام عضلات، نظام اعصاب، نظام دوران خون اور جلد وغیرہ کے افعال بہتر ہو جاتے ہیں۔
اچھا اور مناسب لباس جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے لباس ہمیشہ موسم کی مناسبت سے پہننا چاہیے تنگ لباس نقصان دہ ہوتا ہے لباس کا آرام دہ ہونا بھی صحت کی بہتری کے لیے لازمی ہے۔ کام کاج کے بعد مناسب آرام اور نیند ذہنی اور جسمانی حفظان صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
اچھی خوراک اور صاف پانی صحت کے لیے لازمی ہے۔ خوراک ہمیشہ متوازن ہونی چاہیے، خوراک کی مقدار کے ساتھ خوراک کے اوقات کا بھی خیال رکھنا چاہیے، بچوں کے لیے خوراک ان کی عمر کے مطابق ہو تو بہتر ہے۔
انفرادی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اجتماعی حفظان صحت کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول سے علیحدہ نہیں کرسکتے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں اپنی جسمانی صفائی کا خیال رکھتے ہیں وہیں پر اپنے گلی کوچوں کی صفائی کا خیال رکھیں۔ کیونکہ گلی کوچوں کی صفائی سے مچھر اور مکھیاں وغیرہ پیدا نہیں ہو سکیں گی اور وہ مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث نہیں بنیں گی اس کے علاوہ سکولوں، دفتروں، سیر گاہوں اور تفریح گاہوں کی صفائی کا بھی اجتماعی حفظانِ صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہم درج بالا باتوں کو مد نظر رکھ کر ہی اپنی اجتماعی اور انفرادی صحت کو برقرار رکھ سکتے ہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق صحت جسم انسانی کی اس کیفیت حیات کا نام ہے جو انسان کی جسمانی صحت ذہنی درستگی اور اس کی سماجی اور معاشی بہبود کی مظہر ہو۔
حفظان صحت کے بارے میں لوگوں کو مناسب تعلیم دینا بہت ضروری ہے تاکہ لوگ حفظان صحت کے اصولوں کو جان سکیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر صحت مند زندگی گزار سکیں۔
اس مقصد کے لئے اخباروں، کتابوں اور دوسرے تصویریں لٹریچر مثلا اسٹیکرز، اشتہارات اور پمفلیٹوں سے مدد لی جا سکتی ہے حفظان صحت کے اصولوں کو مناسب پیرائے میں ان کے ذریعہ ہر جگہ پہنچایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس معاملے میں ٹی وی حفظان صحت کے بارے میں پروگرام، ہدایات اور اشتہارات وغیرہ کے ذریعے بڑے مؤثر طریقے سے تعلیم دے سکتے ہیں اور جہاں ٹی وی نہیں ہیں وہاں پر ریڈیو کی ابھی تک ایک اپنی اہمیت ہے اس لئے ریڈیو پر بھی حفظان صحت کے بارے میں پروگرام دیے جانے چاہیے تاکہ حفظان صحت کی باتیں ہر ایک تک پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بھی انسانی صحت کے بارے میں لوگوں کو بڑے پراثر طریقے سے بتایا جاسکتا ہے۔
سکولوں میں طلبہ کے لئے لیکچرز کا اہتمام جن میں صحت سے متعلقہ اہلکار انہیں صحت کی باتیں بتائیں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح کے لیکچرز کا اہتمام اگر محلہ وار بھی کر لیا جائے تو ان سے ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے۔
بچے کی ابتدائی تعلیم کیونکہ ماں کی گود میں ہی ہوتی ہے اس لیے عورتوں کو اس معاملہ کی مناسب تعلیم کا دیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ مائیں بن کر اپنے بچوں کو حفظان صحت کے اصولوں سے روشناس کرا سکیں۔
بہرحال اس عمل کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو حفظان صحت کے اصولوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ صحت مند ہو سکے اس لیے اس معاملے میں حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اپنے طور پر کوشش کرنی چاہیے۔
(DHMS 2nd year Hygiene, Importance of Hygiene سال دوم)
The post انسانی زندگی میں ہائی جین کی اہمیت appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post میں آرسینک کا استعمال acute coryza appeared first on YOU DOCTOR.
]]>(DHMS 2nd year Materia Medica Arsenic Album in Acute Coryza, اکیوٹ کوریزہ)
The post میں آرسینک کا استعمال acute coryza appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post آرسینک البم کی ذہنی علامات appeared first on YOU DOCTOR.
]]>(DHMS 2nd year Materia Medica Arsenic Album, Mental symptoms, سال دوم)
The post آرسینک البم کی ذہنی علامات appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post آرسینک البم کی عام خصوصیات appeared first on YOU DOCTOR.
]]>(DHMS 2nd year Materia Medica, Arsenic Album, سال دوم)
The post آرسینک البم کی عام خصوصیات appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post ہومیوپیتھی ایک قدرتی طریقہ علاج appeared first on YOU DOCTOR.
]]>(1)مثل کا علاج مثل سے کیا جائے یعنی مریض کو وہ دوا دی جائے جس میں وہ تمام علامات موجود ہوں جو دوا دیتے وقت مریض میں موجود ہوں۔
(2)دوا کو قلیل سے قلیل مقدار میں دیا جائے۔
(3)ایک وقت میں ایک ہی دوا دی جائے۔
(4)مریض کو اس کی مجموعی علامات کے پیش نظر دوا دینی چاہیے اور اس کو عارضی اور جزوی فائدہ پہنچانے کے بجائے مکمل طور پر شفایاب کرنے کی کوشش کی جائے۔
(5)مریض کو ایسی دوا دی جائے جس کی ڈرگ پروونگ ہو چکی ہو۔ دوا کی آزمائش تندرست جسم پر ہونی چاہیے۔
ہومیوپیتھی ایک ایسا فن یا سائنس ہے جس کے ذریعے مریض کا علاج مریض کی بیرونی اور اندرونی علامات کے مطابق بلمثل طریقہ سے کیا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج قدرت کے بنائے ہوئے اٹل قوانین پر مبنی ہے جبکہ دوسرے طریقہ ہائے علاج اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی پابندی بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی بنیاد صرف مریضوں کو تختہ مشق بنانا ہے وہ ہر روز مریضوں پر نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور نئی نئی دریافتیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اپنی دریافت کی ہوئی دوا یا تشخیص کو رد کرکے نئی دوا اور نئی تشخیص کا نظریہ پیش کر دیتے ہیں اس لئے ان کے تجربات کسی اصول کے پابند نہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی کے قدرتی اور اٹل قوانین پر عمل کرکے مریض کو شفا یاب کر سکتے ہیں۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ بہترین اصول علاج یہ ہے کہ وہ سریع ہو، سہل ہو اور مریض کو مستقل طور پر شفا دے اگر ہم ہومیوپیتھی کے اس دفعہ کو سامنے رکھے اور مختلف طریقہ ہائے علاج کا مطالعہ کریں تو ہمیں ہومیوپیتھی ہی ایسا طریقہ علاج نظر آتا ہے جو آرگینن کی اس دفعہ پر پورا اترتا ہے۔ جس طرح قدرت کے اصول اٹل اور نہ بدلنے والے ہیں اسی طرح ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول بھی قدرتی ہونے کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے جبکہ علاج کے دوسرے طریقوں کے اصول قدرتی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ ہومیوپیتھی کے اصول آج بھی وہی ہیں جو اس کی دریافت کے وقت اخذ کیے گئے تھے اور نہ ہی یہ آئندہ ہزاروں سال تک تبدیل ہوں گے۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علاج آسان بے ضرر اور مستقل ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہومیوپیتھک دوا کا انتخاب مثل کا علاج مثل سے کیجئے کے اصول کو سامنے رکھ کر کیا جائے تو دوا قوت حیات (نفس) پر پوری طرح اثر کرتی ہے جس سے مریض اندرونی طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے اور نتیجتہً اس کی بیرونی علامات بھی آسان اور بے ضرر علاج سے مستقل طور پر ٹھیک ہو جاتی ہے۔ آرگینن کی دفعہ53 میں آتا ہے کہ ہومیوپیتھی سے ہی آسان اور درست شفاء حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طریقہ سے زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے ہومیوپیتھک ہی قدرت کے ہمیشہ رہنے والے اور تبدیل نہ ہونے والے اصولوں پر قائم ہے ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی انسان کو سائنسی بنیادوں پر سیدھے راستے پر چلتے ہوئے شفایاب کر سکتا ہے یہ طریقہ علاج بالکل سیدھا ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی ٹیڑھ موجود نہیں اس کے سیدھے ہونے کی مثال دو لفظوں کے درمیان موجود سیدھے خط سے دی جاسکتی ہے۔
(DHMS 2nd year Philosophy, سال دوم،
مثل کا علاج مثل سے کیجئے، قدرتی طریقہ علاج)
The post ہومیوپیتھی ایک قدرتی طریقہ علاج appeared first on YOU DOCTOR.
]]>