wordpress-seo
domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init
action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/youdoctor/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>ہومیوپیتھی ہی شفا کا ایسا راستہ ہے جس میں زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ شفا کا یہ طریقہ کار قدرت کے دائمی اور غیر متغیر قانون کی بنیادوں پر قائم ہے اسی لیے یہ شفا کا سیدھا راستہ ہے جس سے صحیح اور ملائم شفا آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے ایلوپیتھی میں بہت سی چیزیں مرض کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں جو مریض کے لیے فائدہ بخش ہونے کی بجائے آخرکار نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس طریقہ علاج میں بہت سے ایسے عمل بروئے کار لائے جاتے ہیں جو نقصان دہ ہوتے ہیں مثلا فصد کھولنا خواب آور ادویات کا استعمال اور قبض دور کرنے کے لیے مملات کااستعمال وغیرہ۔
ایلوپیتھی میں دوا مجموعی علامات کو سامنے رکھ کر نہیں دی جاتی بلکہ دوا دیتے وقت صرف ایک علامت کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اسی ایک علامت کو دور کرنے کے لئے دوا دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک علامت تو شاید ٹھیک ہو جاتی ہو لیکن مریض کی دوسری تمام علامات جو کی تو رہتی ہیں اس کے علاوہ اس طریقہ علاج میں چونکہ دوا بالضد کے اصول کے تحت دی جاتی ہے اس لیے اس طرح دی جانے والی دوا مرض کو بچائے نکال باہر پھینکنے کے دبا دیتی ہے جس کی وجہ سے مریض وقتی طور پر افاقہ محسوس کرتا ہے لیکن پھر کچھ عرصے بعد موقع ملنے پر وہی مرض دوبارہ عود کر آتا ہے اور مریض کو پہلے کی نسبت زیادہ تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایلوپیتھی میں باالضد ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں جو مریض کے جسم میں پہنچ کر مرض کو وقتی طور پر دبا دیتی ہیں یہ ادویات پہلے تو وقتی طور پر مریض کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن بعد میں اس کے نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیماری جو وقتی طور پر دب گئی ہوتی ہے دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور پھر ڈاکٹر بارہ کسی دوسرے علامت کو سامنے رکھ کر علاج شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔
دراصل ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کی راہیں بالکل جدا ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایلوپیتھی جنگ و جدل کے ذریعے مریض کو طاقت کے زور پر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے جس میں وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج آرام اور سکون کے ساتھ مریض کی صحت کی حالت کو واپس لاتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے صحت مند بنا دیتا ہے۔
ایلوپیتھی میں جب دواؤں کے برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو معالج انہیں دوا کی مزید خوراکیں دے کر دبا دیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کی حالت ہمیشہ ہی خراب ہوتی ہے مثلا اگر کسی مریض کو نیند بہت زیادہ آتی ہو تو ڈاکٹر اسے قہوہ دیتا ہے جو شروع میں تو مریض کو فرحت پہنچاتا ہے اور اس کی نیند کو کم کر دیتا ہے لیکن بعد میں مریض کی نیند بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اس طرح افیون عارضی طور پر تو اسہال کو بند کر دیتی ہے۔ لیکن بعد میں اسہال زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہومیوپیتھی میں شفا دائمی ہوتی ہے چونکہ بیماری در اصل قوت حیات کے لیے غیر فطری افعال سے متاثر ہونے کا نام ہے اس لیے ہومیوپیتھی ہی اسے اپنی دواؤں کے ذریعے درست کر سکتی ہے۔ جب تک قوت حیات صحت کی حالت میں نہیں آتی بیماری کی جسمانی طور پر ظاہر ہونے والی علامات بھی ٹھیک نہیں ہوتی اس لئے قوت حیات جیسی لطف شے کو صحت کی حالت میں لانے کے لئے صرف ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی کارآمد ہو سکتا ہے جو ایلوپیتھی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایلوپیتھی میں صرف مریض کی ظاہری علامات کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی دوا تجویز کر دی جاتی ہے جبکہ ہومیوپیتھی میں دوا تجویز کرتے وقت مریض کی ظاہری علامات کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی علامات اس کے طرز معاشرت خوراک اور لباس وغیرہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور اس کی مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی دوا تجویز کی جاتی ہے اس طرح تجویز کی گئی دوا مریض کو ہمیشہ کے لیے صحت یاب کر دیتی ہے۔
ایلوپیتھی میں مرکب ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دوا میں موجود مختلف اجزاء مریض کے جسم میں اپنے اپنے اثرات شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر مریض کا موجودہ مرض وقتی طور پر دب بھی جائے تو پھر بھی اس میں بہت سی نئی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ایک دوا کے اصول پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک ہی دوا دی جاتی ہے جو مریض کی مجموعی علامات کو دور کرکے اسے شفا دیتی ہے۔
(DHMS 2nd year philosophy, Comparison of Homeopathy and Allopathy, سال دوم)
The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post ہومیوپیتھی ایک قدرتی طریقہ علاج appeared first on YOU DOCTOR.
]]>(1)مثل کا علاج مثل سے کیا جائے یعنی مریض کو وہ دوا دی جائے جس میں وہ تمام علامات موجود ہوں جو دوا دیتے وقت مریض میں موجود ہوں۔
(2)دوا کو قلیل سے قلیل مقدار میں دیا جائے۔
(3)ایک وقت میں ایک ہی دوا دی جائے۔
(4)مریض کو اس کی مجموعی علامات کے پیش نظر دوا دینی چاہیے اور اس کو عارضی اور جزوی فائدہ پہنچانے کے بجائے مکمل طور پر شفایاب کرنے کی کوشش کی جائے۔
(5)مریض کو ایسی دوا دی جائے جس کی ڈرگ پروونگ ہو چکی ہو۔ دوا کی آزمائش تندرست جسم پر ہونی چاہیے۔
ہومیوپیتھی ایک ایسا فن یا سائنس ہے جس کے ذریعے مریض کا علاج مریض کی بیرونی اور اندرونی علامات کے مطابق بلمثل طریقہ سے کیا جاتا ہے۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج قدرت کے بنائے ہوئے اٹل قوانین پر مبنی ہے جبکہ دوسرے طریقہ ہائے علاج اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی پابندی بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی بنیاد صرف مریضوں کو تختہ مشق بنانا ہے وہ ہر روز مریضوں پر نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور نئی نئی دریافتیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اپنی دریافت کی ہوئی دوا یا تشخیص کو رد کرکے نئی دوا اور نئی تشخیص کا نظریہ پیش کر دیتے ہیں اس لئے ان کے تجربات کسی اصول کے پابند نہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی کے قدرتی اور اٹل قوانین پر عمل کرکے مریض کو شفا یاب کر سکتے ہیں۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بتایا گیا ہے کہ بہترین اصول علاج یہ ہے کہ وہ سریع ہو، سہل ہو اور مریض کو مستقل طور پر شفا دے اگر ہم ہومیوپیتھی کے اس دفعہ کو سامنے رکھے اور مختلف طریقہ ہائے علاج کا مطالعہ کریں تو ہمیں ہومیوپیتھی ہی ایسا طریقہ علاج نظر آتا ہے جو آرگینن کی اس دفعہ پر پورا اترتا ہے۔ جس طرح قدرت کے اصول اٹل اور نہ بدلنے والے ہیں اسی طرح ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول بھی قدرتی ہونے کی وجہ سے کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتے جبکہ علاج کے دوسرے طریقوں کے اصول قدرتی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ ہومیوپیتھی کے اصول آج بھی وہی ہیں جو اس کی دریافت کے وقت اخذ کیے گئے تھے اور نہ ہی یہ آئندہ ہزاروں سال تک تبدیل ہوں گے۔ آرگینن کی دفعہ دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علاج آسان بے ضرر اور مستقل ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہومیوپیتھک دوا کا انتخاب مثل کا علاج مثل سے کیجئے کے اصول کو سامنے رکھ کر کیا جائے تو دوا قوت حیات (نفس) پر پوری طرح اثر کرتی ہے جس سے مریض اندرونی طور پر ٹھیک ہو جاتا ہے اور نتیجتہً اس کی بیرونی علامات بھی آسان اور بے ضرر علاج سے مستقل طور پر ٹھیک ہو جاتی ہے۔ آرگینن کی دفعہ53 میں آتا ہے کہ ہومیوپیتھی سے ہی آسان اور درست شفاء حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی طریقہ سے زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے ہومیوپیتھک ہی قدرت کے ہمیشہ رہنے والے اور تبدیل نہ ہونے والے اصولوں پر قائم ہے ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی انسان کو سائنسی بنیادوں پر سیدھے راستے پر چلتے ہوئے شفایاب کر سکتا ہے یہ طریقہ علاج بالکل سیدھا ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی ٹیڑھ موجود نہیں اس کے سیدھے ہونے کی مثال دو لفظوں کے درمیان موجود سیدھے خط سے دی جاسکتی ہے۔
(DHMS 2nd year Philosophy, سال دوم،
مثل کا علاج مثل سے کیجئے، قدرتی طریقہ علاج)
The post ہومیوپیتھی ایک قدرتی طریقہ علاج appeared first on YOU DOCTOR.
]]>