wordpress-seo
domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init
action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/youdoctor/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114The post وٹامن کی تفصیل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>ہمیں زندہ رہنے اور اپنی صحت کی نشونما کے لیے
خوراک میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی اور معدنی نمکیات کے علاوہ کچھ اور ضروری اجزا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضروری اجزاء وٹامن کہلاتے ہیں۔ وٹامن جسم کو توانائی مہیا نہیں کرتے. ان کی کوئی کلارک ویلیو نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بدن کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔ بلکہ یہ جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی حملوں میں مددگار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ چند ایک اقسام کے وٹامن جسم میں بھی تیار ہو سکتے ہیں۔ مگر باقی اقسام کے وٹامنز کا خوراک میں ہونا بہت ضروری ہے جسم کو تندرستی قائم رکھنے کے لیے بہت تھوڑی مقدار میں وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے جسم میں ان کا ہونا لازمی ہے۔ وٹامنز کی درجہ بندی درج ذیل ہے۔
:(A)وٹامن اے
وٹامن اے جسم کی نشونما کے لیے ضروری ہے۔ یہ وٹامن جسم میں متعدی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ اندھیرے میں دیکھنے کے قابل بناتا ہے اور ایپی تھیلیل ٹشو کی بنی ہوئی جھلیوں کو صحت مند رکھتا ہے۔ مثلا آنکھ کی بیرونی جھلی اور نظام تنفس کی بیرونی جھلی وغیرہ۔ ایک بالغ آدمی یا عورت کو روزانہ وٹامن ایک ہیں کی پانچ ہزار (5000)یونٹ درکار ہوتے ہیں۔ حمل یا دودھ پلانے کے زمانے میں ایک عورت کو چھ ہزار (6000) سے سات ہزار (7000) یونٹ تک وٹامن اے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ویٹامن کی کمی ہوجاتی ہے۔(night blindness)سے نائٹ بلائنڈنیس
جلد اور آنکھ کا کورنیا خشک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جلد، نظام تنفس، نظام اہتطام اور نظام بول میں جراثیمی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ وٹامن جانداروں کی چربی، انڈے، دودھ، مکھن، کاڈ اور ہیلی بٹ مچھلی کے جگر کے تیل سے حاصل ہوتا ہے۔ مختلف سبزیات اور پھلوں مثلا گاجر، پالک، شلغم، ٹماٹر، سنگترہ اور آم میں ایک مادہ کیرو ٹین پایا جاتا ہے۔ جو جسم میں جاکر بٹن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔(A)اے
:(B)وٹامن بی
وٹامن بی 11 مختلف وٹامنز کے گروپ کا نام ہے وٹامنز کا یہ گروپ بی کمپلیکس کہلاتا ہے۔ اس گروپ میں مندرجہ ذیل وٹامن زیادہ اہم ہیں۔
:B1 وٹامن
وٹامن بی1 اعصابی نظام، دل اور عضلاتی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس وٹامن کی کمی بیری بیری کے مرض کا باعث بنتی ہے۔ یہ وٹامن انڈے جگر خمیر اور چاول کے چھلکوں میں پایا جاتا ہے۔ مشین سے پیسے ہوئے آٹے اور مشین میں چھڑے ہوئے چاولوں میں اس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک انزائم کی مدد کرتی ہے۔
:B2 وٹامن
یہ وٹامن آنکھوں، منہ اور جلد کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی کمی سے آنکھوں میں اور جلد میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے۔ زبان پاک جاتی ہے اور ہونٹوں کے کونے پھٹ جاتے ہیں یہ وٹامن دودھ انڈے جگر دالوں اناج اور سبزیات میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک انزائم کی مدد کرتی ہے۔
:نایاسین یانکوٹینامائڈ
یہ وٹامن پی پی فیکٹر بھی کہلاتا ہے۔ یہ بھی حیاتیاتی آکسیڈیشن میں ایک اور عزائم کی مدد گار ہے۔ یہ وٹامن جلد، دماغ اور نظام اہتطام کی صحت سے متعلق ہے۔ اس کی کمی اعضاء کی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے جلد کی سوزش اسہال اور ذہنی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن اناج، دودھ، انڈے، جگر، گوشت خمیر، دالوں، پھلیوں اور مٹر میں پایا جاتا ہے۔
:B6 وٹامن
یہ وٹامن ہمارے جسم میں امینو ایسڈ بنانے والے عزائم کی مدد کرتا ہے ہماری انتڑیوں میں موجود بیکٹیریا یہ وٹامن بناتے ہیں۔ اس لئے عام طور پر ہمارے جسم میں اس وٹامن کی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن بعض اوقات ادویاتی ردعمل سے وٹامن کی کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایلنمیا کی بیماری ہو جاتی ہے۔
:B12 وٹامن
یہ مٹا میں خون کے سرخ سیلوں کی پیدائش کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس وٹامن کی کمی بھی ایلنمیا کا باعث ہوتی ہے۔ یہ دودھ، جگر اور گوشت میں پایا جاتا ہے۔
:فولک ایسڈ
وٹامن کی یہ قسم بھی خون کے سرخ سیلوں کی افزائش کے لیے ضروری ہے یہ ہڈیوں کے سرخ گودے اور افعال کے لئے بہت ضروری ہے اس وٹامن کی کمی خون کی کمی کا باعث بن جاتی ہے اور ایلنمیا ہو جاتا ہے۔
:C وٹامن
وٹامن سی سبز ترکاریوں تازہ پھلوں مثلا سنگترے، مالٹے کنو چکوترے، لیمو اور گلگل وغیرہ میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ امرود، آملہ، اناناس اور آلو میں بھی اس کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ تھوڑی مقدار میں یہ دودھ میں بھی پایا جاتا ہے۔ وٹامن سی ہڈیوں جیسی بافتوں کے سیلوں کے درمیان پائے جانے والے مادے اور خون کی عروق شیریہ کی صحت کو برقرار رکھتا ہے۔ اس ویٹامن کی کمی سے سکروی نامی مرض پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مرض میں جسمانی کمزوری، وزن میں کمی اور عضلات اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ مسوڑھے سوج جاتے ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں مثلاً مسوڑھوں، ناک، کان، آنکھ، دماغ، انتڑیوں، گردوں جلد کے نیچے عضلات میں اور ہڈیوں کی بیرونی جھلی پیری اوسٹیم سے خون بہتا ہے جب ہڈیوں کی بیرونی جھلی سے خون بہہ رہا ہو تو ہڈیوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ ڈبے کا دودھ ویٹامن سی کی کمی پیدا کر دیتا ہے۔ اس لئے ایسے بچوں کو جو ڈبے کا دودھ پی رہے ہوں، روزانہ وٹامن سی کی ایک خاص مقدار بھی دی جانی چاہیے۔
D وٹامن
وٹامن ڈی دودھ، دہی، کریم، انڈے کی زردی، مکھن اور کاڈ اور ہیلی بٹ مچھلی کے جگر کے تیل میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس وٹامن کی افزائش دھوپ کی الٹراوائلٹ شعاؤں کے عمل سے ہماری جلد میں بھی ہوتی ہے۔ یہ وٹامن کیلشیم اور فاسفورس کو انتڑیوں میں سے جذب کرکے خون میں شامل کرتا ہے۔ اور ہڈیوں کی نشوونما میں بھی کام کرتا ہے۔ اس طرح وٹامن ڈی کی خوراک میں کمی کی وجہ سے خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی مناسب مقدار جذب نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی یہ دھاتیں ہڈیوں کی نشونما بہتر طور پر کر سکتی ہے جس کی وجہ سے بچوں میں ریکٹس نامی بیماری ہو جاتی ہے۔ اس بیماری میں ہڈیاں ترم اور ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ عضلات میں ڈھیلا پن آجاتا ہے پیٹ پھول جاتا ہے اور بچوں کو اکثر دست لگے رہتے ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی سے حاملہ عورتوں کی ہڈیاں نرم ہو جاتی ہے۔ حاملہ عورتوں کی اس بیماری کو روسٹی اور ملیشیا کہتے ہیں۔
:E وٹامن
وٹامن ای گہیوں کے بیج، دوسری اجناس، سبز ترکاریوں اور مکھن میں پایا جاتا ہے۔ اس وٹامن کی کمی نظام تولید و تناسل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
:K وٹامن
وٹامن گوشت اور سبز پتوں والی ترکاریوں میں پایاK جاتا ہے۔ انتڑیوں میں موجود جراثیم بھی اسے تیار کرتے ہیں یہ وٹامن ایسے مرکبات کی تیاری کے لیے لازمی ہے جو بہتے ہوئے خون کے جسیمے کے لئے ضروری ہے۔
P وٹامن
یہ وٹامن لیموں اور سنگترے کے چھلکوں میں پایا جاتا ہے جسم میں اس کی موجودگی خون کی شریانوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
صرف روغنیات میں حل ہو سکتے ہیں۔ A,E,K وٹامن
پانی میں حل ہو سکتے ہیں۔ B.complex,C اور وٹامن
(DHMS 2nd year physiology, note on vitamins, Vitamin A, vitamin B, Vitamin B1, Vitamin B2, Vitamin B6, Vitamin B12, folic acid, Vitamin C, Vitamin D, vitamin E, vitamin K, vitamin P)
The post وٹامن کی تفصیل appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>ہومیوپیتھی ہی شفا کا ایسا راستہ ہے جس میں زود اثر یقینی اور مستقل شفا حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ شفا کا یہ طریقہ کار قدرت کے دائمی اور غیر متغیر قانون کی بنیادوں پر قائم ہے اسی لیے یہ شفا کا سیدھا راستہ ہے جس سے صحیح اور ملائم شفا آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے ایلوپیتھی میں بہت سی چیزیں مرض کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں جو مریض کے لیے فائدہ بخش ہونے کی بجائے آخرکار نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس طریقہ علاج میں بہت سے ایسے عمل بروئے کار لائے جاتے ہیں جو نقصان دہ ہوتے ہیں مثلا فصد کھولنا خواب آور ادویات کا استعمال اور قبض دور کرنے کے لیے مملات کااستعمال وغیرہ۔
ایلوپیتھی میں دوا مجموعی علامات کو سامنے رکھ کر نہیں دی جاتی بلکہ دوا دیتے وقت صرف ایک علامت کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اسی ایک علامت کو دور کرنے کے لئے دوا دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک علامت تو شاید ٹھیک ہو جاتی ہو لیکن مریض کی دوسری تمام علامات جو کی تو رہتی ہیں اس کے علاوہ اس طریقہ علاج میں چونکہ دوا بالضد کے اصول کے تحت دی جاتی ہے اس لیے اس طرح دی جانے والی دوا مرض کو بچائے نکال باہر پھینکنے کے دبا دیتی ہے جس کی وجہ سے مریض وقتی طور پر افاقہ محسوس کرتا ہے لیکن پھر کچھ عرصے بعد موقع ملنے پر وہی مرض دوبارہ عود کر آتا ہے اور مریض کو پہلے کی نسبت زیادہ تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایلوپیتھی میں باالضد ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں جو مریض کے جسم میں پہنچ کر مرض کو وقتی طور پر دبا دیتی ہیں یہ ادویات پہلے تو وقتی طور پر مریض کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن بعد میں اس کے نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بیماری جو وقتی طور پر دب گئی ہوتی ہے دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور پھر ڈاکٹر بارہ کسی دوسرے علامت کو سامنے رکھ کر علاج شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرض کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔
دراصل ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی کی راہیں بالکل جدا ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایلوپیتھی جنگ و جدل کے ذریعے مریض کو طاقت کے زور پر ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے جس میں وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج آرام اور سکون کے ساتھ مریض کی صحت کی حالت کو واپس لاتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے صحت مند بنا دیتا ہے۔
ایلوپیتھی میں جب دواؤں کے برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو معالج انہیں دوا کی مزید خوراکیں دے کر دبا دیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کی حالت ہمیشہ ہی خراب ہوتی ہے مثلا اگر کسی مریض کو نیند بہت زیادہ آتی ہو تو ڈاکٹر اسے قہوہ دیتا ہے جو شروع میں تو مریض کو فرحت پہنچاتا ہے اور اس کی نیند کو کم کر دیتا ہے لیکن بعد میں مریض کی نیند بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اس طرح افیون عارضی طور پر تو اسہال کو بند کر دیتی ہے۔ لیکن بعد میں اسہال زیادہ شدت کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہومیوپیتھی میں شفا دائمی ہوتی ہے چونکہ بیماری در اصل قوت حیات کے لیے غیر فطری افعال سے متاثر ہونے کا نام ہے اس لیے ہومیوپیتھی ہی اسے اپنی دواؤں کے ذریعے درست کر سکتی ہے۔ جب تک قوت حیات صحت کی حالت میں نہیں آتی بیماری کی جسمانی طور پر ظاہر ہونے والی علامات بھی ٹھیک نہیں ہوتی اس لئے قوت حیات جیسی لطف شے کو صحت کی حالت میں لانے کے لئے صرف ہومیوپیتھک طریقہ علاج ہی کارآمد ہو سکتا ہے جو ایلوپیتھی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایلوپیتھی میں صرف مریض کی ظاہری علامات کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی دوا تجویز کر دی جاتی ہے جبکہ ہومیوپیتھی میں دوا تجویز کرتے وقت مریض کی ظاہری علامات کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی علامات اس کے طرز معاشرت خوراک اور لباس وغیرہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور اس کی مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ہی کوئی دوا تجویز کی جاتی ہے اس طرح تجویز کی گئی دوا مریض کو ہمیشہ کے لیے صحت یاب کر دیتی ہے۔
ایلوپیتھی میں مرکب ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دوا میں موجود مختلف اجزاء مریض کے جسم میں اپنے اپنے اثرات شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر مریض کا موجودہ مرض وقتی طور پر دب بھی جائے تو پھر بھی اس میں بہت سی نئی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں مجموعی علامات کو دیکھتے ہوئے ایک دوا کے اصول پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک ہی دوا دی جاتی ہے جو مریض کی مجموعی علامات کو دور کرکے اسے شفا دیتی ہے۔
(DHMS 2nd year philosophy, Comparison of Homeopathy and Allopathy, سال دوم)
The post علاج بالضد سے علاج بالمثل بہتر ہے appeared first on YOU DOCTOR.
]]>The post سیل پر نوٹ لکھیں appeared first on YOU DOCTOR.
]]>انسانی خلیہ یا سیل پروٹوپلازم سے بنا ہوتا ہے۔ اس کہ اردگرد ایک جھلی کی دیوار ہوتی ہے۔ اس جھلی کو سیل ممبرین کہتے ہیں۔ سیل ممبرین میں سے مختلف کیمیائی مادے گزر کر سیل کے اندر جا سکتے ہیں۔ سیل کے مرکز میں سیل کا نیوکلیس ہو تا ہے۔ یہ نیوکلیس بھی پروٹوپلازم کا بنا ہوتا ہے۔ نیوکلیس میں موجود پروٹوپلازم کے علاوہ باقی سیل کے پروٹوپلازم کو سائٹوپلازم کہتے ہیں۔ نیوکلیس کے اردگرد بھی ایک جھلی ہوتی ہے جو نیوکلیر ممبرین کہلاتی ہے۔ نیوکلیس میں ایک یا ایک سے زیادہ اجسام ہوتے ہیں۔ جو نوکلیولائی کہلاتے ہیں۔ نیوکلیس میں کروماٹن کا ایک جال سا بچھا ہو تا ہے۔ کروماٹن میں کرو موسومز پائے جاتے ہیں۔ ان کروموسومز کی تعداد مختلف جانوروں میں مختلف ہوتی ہے۔ کروموسومز میں جینز پائے جاتے ہیں۔ جو والدین کی موروثی خصوصیات بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ سیل میں نیوکلیس کے قریب پوٹوپلازم کا ایک کرہ ہوتا ہے۔ جو سنٹروسوم کہلاتا ہے۔ سنٹروسوم میں ایک یا دو غیر شفاف زرے ہوتے ہیں۔ جنھیں سنٹریی اول کہتے ہیں۔ سنٹری اول سیل کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مائٹوکانڈریا عمل تنفس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاؤہ گالجی باڈیز کاجال سا ہوتا ہے گالجی باڈیز کی تراوش پیدا کرتی ہیں۔ اور دیگر کیمیائی تبدیلیوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ سیل میں پائی جانے والی جھلی کی نالیوں پر آزاد ذرے ہوتے ہیں جنہیں رائبوسوم کہا جاتا ہے۔ یہ امینوایسڈون سے پروٹین تیار کرتے ہیں۔
(Physiology DHMS 2nd year, Cell, سال دوم، سیل, dusra saal,)
The post سیل پر نوٹ لکھیں appeared first on YOU DOCTOR.
]]>